Blogroll

header ads

کورونا۔ سازش یا حقیقت

کورونا وائرس سب سے پہلے چین میں سامنے آیا اور پہلی فرصت میں چینی ہی متاثر ہوئے۔ چینی ماہرین اور حکومت کی طرف سے یہ موقف سامنے آیا کہ یہ ایک جان لیوا وائرس ہے جو جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے اور جو خطرناک حد تک ایک سے دوسرے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔

تب ساری دنیا نے چین کے اس موقف پر اعتبار کیا اور امریکا سمیت سب نے اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا لیکن اس وقت بعض چینیوں اور دیگر امریکا مخالف قوتوں نے اس شک کا اظہار شروع کیا کہ شاید یہ امریکا نے کوئی سازش کی ہو اور لیبارٹری میں وائرس تیار کرکے چین منتقل کیا ہو لیکن جب وائرس چین سے نکل کر یورپ اور امریکا منتقل ہو گیا تو معاملہ اُلٹ ہو گیا اور یوں اس سازشی تھیوری سے ہوا نکل گئی لیکن پھر معاملہ اُلٹ ہوگیا۔

ٹرمپ سمیت چین کے کئی مخالفوں نے یہ سازشی تھیوری گھڑ لی کہ شاید یہ چین نے لیبارٹری میں تیار کرکے امریکا اور یورپ منتقل کیا ہے۔ اب کامن سینس کی بات ہے کہ اگر امریکا نے چین کے خلاف تیار کرنا تھا تو پھر ایسی چیز کیوں تیار کی جس سے خود وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکا بلکہ زیادہ متاثر ہوا اور اگر چینیوں نے یہ کام کرنا تھا تو پھر اسے ذمہ داری اپنے سر لینے اور اپنے ہزاروں لوگوں کو مروانے کی کیا ضرورت تھی؟

لیکن سازشی نظریات ذہن کے لئے ایسی مرغوب غذا ہے کہ آج بھی ایک تہائی امریکیوں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس چین نے لیبارٹری میں تیار کرکے ان کے ملک منتقل کیا ہے۔ اور تو اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک اسٹڈی کے مطابق ساٹھ فیصد برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ کورونا کے حوالے سے ان کی حکومت انہیں پوری حقیقت نہیں بتارہی۔

اسی طرح کچھ لوگ اس وائرس کی پیدائش کو فائیو جی ٹیکنالوجی کا نتیجہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسری بڑی سازشی تھیوری یہ ہے کہ بل گیٹس اور ان جیسے لوگوں نے ویکسین میں جو سرمایہ کاری ہے یہ سب کچھ اس کے تناظر میں یہی لوگ کررہے ہیں تاکہ ویکسین تیار کرکے وہ کھربوں ڈالر کما سکیں تاہم بیرون ملک جتنی بھی سازشی تھیوریز ہیں۔

وہ زیادہ تر کورونا وائرس کی تخلیق سے متعلق ہیں تاہم دنیا کی تمام اقوام اسے جان لیوا مرض، وبا اور ایک بڑی مصیبت سمجھتی ہیں اور ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس سے جان چھڑانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے لیکن سازشی تھیوریز کی لیبارٹری کی حیثیت رکھنے والے وطن عزیز میں تو معاملہ یوں تشویشناک ہے کہ یہاں کی اکثریت اسے بیماری یا وبا کے بجائے ڈرامہ سمجھتی ہے۔

پاکستان میں ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ یہود و ہنود کی سازش ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو اپنی عبادت گاہوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک اور سازشی تھیوری یہ زیرگردش ہے کہ اس کی ویکسین کے ذریعے امریکی پاکستانی مسلمانوں کے اندر ایسا چپ انسٹال کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے ذریعے پھر ان کے عقیدے اور نظریے کو وہ اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کریں گے۔ ایک اور سازشی تھیوری یہ ہے کہ کورونا کے نام پر زیادہ سے زیادہ اموات دکھا کر وزیراعظم عمران خان دنیا سے پیسہ بٹورنا چاہتے ہیں۔

یہ سازشی تھیوری سب سے خطرناک اور مہلک یوں ہے کہ اس سے مزید ضمنی سازشی تھیوریز نے جنم لیا ہے جس کی وجہ سے لوگ ٹیسٹ کرنے اور اسپتال جانے سے گریز کررہے ہیں۔

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ سازشی تھیوریز تیار کرنا اور ان پر یقین کرنا انسانی ذہن کی مرغوب غذا ہے لیکن کم از کم میں ابھی تک کورونا سے متعلق کسی سازشی نظریے کا قائل نہیں ہو سکا۔

میں ڈاکٹر ہوں اور نہ طبی معاملات کو سمجھتا ہوں لیکن چین کے شہر ووہان سے جنم لینے کے دن سے اس معاملے کو فالو کررہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جس دن پاکستان میں عورت مارچ ہورہا تھا (اس وقت تک کورونا پاکستان میں داخل نہیں ہوا تھا) تو اس دن میرا جو کالم جنگ میں شائع ہوا، وہ بھی کورونا سے متعلق تھا اور میرے ٹی وی پروگرام ”جرگہ“ میں بھی اسی موضوع سے متعلق ماہرین کے ساتھ گفتگو ہوئی۔

یقیناً سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، اس لئے عالمی سطح پر بھی اس وبا پر سیاست ہونے لگی ہے اور پاکستان کے اندر بھی اس پر سیاست ہورہی ہے لیکن دنیا بھر اور پاکستان کے ڈاکٹرز اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا ایک خطرناک وبا ہے اور یہ کہ ابھی تک اس کی ویکسین یا علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔

میرے پڑھنے والے تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں میری سوچ سے بخوبی آگاہ ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے سے نمٹنے میں حکومت نے پہاڑ جتنی غلطیاں کی ہیں لیکن یہ سازشی تھیوری سراسر بکواس ہے کہ حکومت جان بوجھ کر کورونا کے کیسز کو زیادہ دکھا رہی ہے یا پھر دیگر بیماریوں سے مرنے والوں کو اس فہرست میں ڈال رہی ہے۔

کورونا نے ہر حکومت کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور کورونا کے کیسز یا اموات پر عمران خان کی حکومت کو کچھ نہیں ملنا ہے۔ اسی طرح اس بات کا تو امکان ہے کہ حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لئے کورونا کی اموات یا کیسز کو چھپالے لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی حکومت یا اسپتال اپنے ہاں کورونا کیسز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے۔

کیونکہ جہاں جتنی زیادہ اموات ہوتی ہیں، وہاں کی انتظامیہ پر اتنی زیادہ تنقید ہوتی ہے اور جہاں کم کیسز سامنے آتے ہیں یا اموات کم ہوتی ہیں تو اس حکومت یا ادارے کی تعریف ہوتی ہے۔تو پھر حکومت کیوں کر کیسز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا ایک وبا کی صورت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

حکومت اسے سنجیدہ لے یا نہ لے، ہر شہری کو اسے سنجیدہ لینا چاہئے۔ ہر شہری کو زیادہ سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرکے اس سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق ہزاروں لوگوں ایسے ہیں جن میں یہ وائرس داخل ہو چکا ہے لیکن قوتِ مدافعت مضبوط ہونے کی وجہ سے ان پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا تاہم ان سے وہ ایسے لوگوں کو منتقل ہو سکتا ہے کہ جو ان کی تاب نہ لاسکیں۔

اس لئے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ سازشی نظریات سے جان چھڑا کر احتیاط سے کام لے۔ ماسک پہنے۔ ہاتھ دھوئے اور علامات ظاہر ہونے کی صورت میں ٹیسٹ کروائے اور ڈاکٹر سے رجوع کرے۔

0 Comments:

Post a Comment